Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

سردی اپنے عروج پر تھی۔

آنگن میں لگے نیم کے درخت سے ہوائیں شائیں شائیں ٹکرا رہی تھیں۔ برف میں گھلا سرد جمود ماحول کو خاموشی کی چادر سے ڈھانپے ہوئے تھا۔ ایسی رگوں میں لہو جما دینے والی سردی میں وہ گرم بستر سے دور آنگن میں کسی روح کی طرح بھٹک رہی تھی۔

اس کے حسین چہرے پر تفکرات کی وحشت تھی  آج گھر آ کر اس کو خبر یہ ملی تھی کہ اس کی امی ابو اسی ہفتے اس کی اور گلفام کی منگنی کرنا چاہ رہے ہیں اور امتحانوں کے بعد شادی کرنے کا ارادہ ہے۔
یہ خبر اس کے قدموں تلے کی زمین نکالنے کیلئے کافی تھی۔ ابھی وہ اس ٹینشن سے نہ نکل پائی تھی کہ کس طرح اس کو اسکوٹر خریدنے سے باز رکھے کہ یہ منگنی کی نئی مصیبت گلے پڑتی نظر آ رہی تھی۔

”رخ! خیر تو ہے نا؟ یہ کیوں تو اس سردی میں آنگن کے چکر لگا رہی ہے؟ طبیعت ٹھیک ہے نا؟“ گلفام ہمیشہ کی طرح اس کی خوشبو سونگھتا ہوا وہاں چلا آیا تھا۔
(جاری ہے)

”تم… اس ٹائم تک جاگ رہے ہو آج؟“ وہ اسے حیرت سے دیکھ کر گویا ہوئی تھی کہ وہ جلدی سونے کا عادی تھا۔

”سچ پوچھو تو میں یہی دعا کر رہا تھا تم مجھے یہاں مل جاؤ۔“ اس کے دھیمے لہجے میں محبت کی آنچ سلگ رہی تھی۔ وہ محبت بھری نگاہوں سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔

”مجھے مارے خوشی کے نیند نہیں آ رہی ہے  جب سے امی نے کہا ہے وہ اسی ہفتے تیری انگلی میں انگوٹھی پہنائیں گی تب سے میں بے چین ہو گیا ہوں اور چاہتا ہوں جلد سے جلد اس خوبصورت ہاتھ کی انگلی میں میرے نام کی انگوٹھی تو پہنے اور میں دیکھوں وہ انگوٹھی اس حسین انگلی میں آکر اور کتنی حسین ہو جائے گی۔
“ وہ محبت کے احساس سے سخت جذباتی ہو رہا تھا اور وہ سوچ رہی تھی تھوڑی ذہانت سے کام لے کر اس کو ہی استعمال کیا جائے کہ امی تو اس کی ایک سننے پر تیار نہ ہوتیں اگر وہ ان سے کچھ کہتی تو وہ بنا لحاظ اس کا منہ توڑنے سے بھی گریز نہ کرتیں۔

وہ پہلے ہی اس سے بے حد نالاں رہتی تھیں۔ اس وقت گلفام ہی اس کی مشکل حل کر سکتا تھا۔

”میں بھی یہی چاہتی ہوں  تمہارے نام کی انگوٹھی پہنوں مگر…“ اس نے جذباتی لہجے میں کہہ کر دانستہ بات چھوڑی تھی۔

”کیا تم بھی یہ سب چاہتی ہو… کیا تم دل سے کہہ رہی ہو رخ!“ ہوا کا ایک سرد جھونکا اسے کپکپانے پر مجبور کر گیا۔ گلفام نے خود اوڑھی ہوئی گرم شال اس پر ڈالتے ہوئے مسرت بھرے لہجے میں کہا۔ اس کے انداز میں بے یقینی بے اعتمادی کا عنصر موجود تھا۔

”یہ تم کیوں پوچھ رہے ہو؟ کیا تم کو معلوم نہیں ہے ہماری منگنی تو بچپن میں ہی کر دی گئی تھی۔
اب تو محض رسم ادا کی جائے گی۔“

”لیکن تم نے کبھی بھی اس رشتے کو دل سے قبول نہیں کیا تھا۔“ گلفام بھی آج دو ٹوک بات کرنے کا ارادہ کر چکا تھا۔

”کس طرح اظہار ہوتا ہے مجھے نہیں معلوم لیکن امی ابو کے حکم کو نہ ماننے کی مجھ میں ہمت نہیں ہے اور اس کا مطلب یہ بھی ہے میں اس رشتے پر دل سے راضی ہوں۔“ اس کے چہرے پر خوبصورت مسکراہٹ تھی۔
ایسی مسکراہٹ جس پر وہ دل و جان سے فدا ہونے کو تیار رہتا تھا۔

”مگر تم نے مجھے ہمیشہ نظر انداز کیا ہے رخ! کبھی میری محبت کا جواب محبت سے نہیں دیا۔ مجھے یقین آتا کہ تم کو مجھ سے محبت ہے۔“ وہ اس کے قریب آکر شرمیلی آواز میں بولی۔

”تم کو اس بات کا نہیں معلوم کہ عورت کے انکار میں اقرار چھپا ہوتا ہے اور ہر بات اپنے وقت پر ہی اچھی لگتی ہے۔

جب وقت آئے گا محبت کا تو میری محبت میں کوئی کھوٹ نہیں پاؤ گے مگر…“

”مگر… یہ مگر کیا ہے؟“ اس کے اظہار محبت نے اس کے چہرے پر چراغاں کر دیا تھا اور اس کی ادھوری بات پر وہ چونک کر بولا۔

”میرے پیپرز ہونے والے ہیں اور ان کی تیاریوں میں  میں یہ منگنی بھی انجوائے نہیں کر پاؤں گی۔ تم اچھی طرح جانتے ہو ایسے خوبصورت دن بار بار تو نہیں آتے ہیں اور اس ہفتے منگنی ہوئی تو میں اپنی فرینڈز کو دعوت بھی نہ دے سکوں گی کہ وہ پیپرز سے پہلے کوئی بھی نہیں آئیں گی۔
“ وہ سخت اداس تھی۔

”یہ بات تو ہے تمہاری فرینڈز کو آنا تو چاہئے پھر کیا کریں؟“

”ایک ماہ بعد کا کہہ دو  میرا نام مت لینا۔“

###

وہ دادی جان کو عامرہ پھوپو کے ہاں لے کر آیا تو وہ بے حد خوش ہو گئی تھیں۔

”ارے اماں! آج بیٹی کی یاد کیسے آ گئی؟ کتنے عرصے بعد آئی ہو؟“ اماں سے گلے ملنے کے بعد وہ طغرل کی پیشانی چوم کر گویا ہوئیں۔

”یاد آئی تمہاری اور میں آ گئی بس۔“

”یاد آ گئی یا آپ کی لاڈلی آپ کے پاس نہیں ہے تو دل بہلانے آپ یہاں میرے پاس آ گئی ہیں۔ میں سب جانتی ہوں اماں! پری کے سامنے آپ ہمیں کوئی اہمیت نہیں دیتی ہیں۔“ عامرہ کا لہجہ سخت شکایتی تھا  ملازمہ پانی کے گلاس رکھ کر گئی تھی۔

”کیسا خون سفید ہو گیا ہے تمہارا عامرہ! حد کرتی ہو  لوگ کہتے ہیں پھوپی بھتیجی ایک ذات  ماں بیٹی دو ذات اور تم نے تو یہ مثال ہی بدل کر رکھ دی  کیوں بلاوجہ اس بچی سے دل میں بغض رکھتی ہو۔
جو تمہارے اچھے میں نہ برے میں گھٹ گھٹ کر زندگی جئے جا رہی ہے وہ کبھی سوچا ہے اس کی زندگی کے بارے میں؟“ حسب عادت غصے میں وہ بولتی چلی گئی تھیں۔

”اماں جان! میں نے ایسا کیا کہہ دیا جو آپ آگ بگولہ ہو رہی ہیں۔ ہمیشہ آپ پری کے معاملے میں آنکھیں بدل لیتی ہیں۔“

”جب تم ماتھے پر آنکھیں رکھ لو گی تو میں آنکھیں بھی نہ بدلوں؟ واہ بھئی واہ! تم بھی اور آصفہ بھی اس بچی کے ساتھ زیادتی کرتی آئی ہو  جب بھی گھر جاتی ہو میری پری تمہاری آؤ بھگت میں لگی رہتی ہے اور تم ساری محبت اور پیار عادلہ اور عائزہ پر لٹاتی ہو۔
“ انہوں نے بلا کسی لحاظ مروت کے کھری کھری سنائیں۔

”دیکھ رہے ہو طغرل! اماں کس طرح پری کی حمایت لیتی ہیں؟“ وہ مسکرا کر طغرل سے مخاطب ہوئی تھیں۔ وہ بہت خاموشی سے ان کی گفتگو سن رہا تھا پھر ان کی بات پر مسکرا کر بولا۔

”جی پھوپو! سن رہا ہوں مگر کچھ عرض نہ کر سکوں گا کہ توپوں کا رخ میری طرف ہو جائے گا۔“ اس کے انداز میں بلا کی شوخی تھی۔

”دیکھ طغرل! غلط بیانی سے کام مت لے  میں ناحق بات نہیں کرتی۔“

”بس ٹھیک ہے اماں! اب میں آپ کو جانے نہیں دوں گی  چند روز رہنا پڑے گا یہاں آپ کو  شریف یاد کر رہے تھے آپ کو دیکھیں گے تو خوش ہو جائیں گے۔“

”اچھا بچیوں کو تو بلاؤ کہاں ہیں وہ سب؟“

”بلاتی ہوں اماں! وہ کمروں میں ہیں آپ کی آواز نہیں گئی ہو گی  ورنہ بھاگی ہوئی آتیں دونوں۔
“ پھر اٹھتے ہوئے گویا ہوئیں۔

”طغرل! کیا لو گے؟ اماں تو چائے پئیں گی مجھے معلوم ہے۔“

”تھینکس پھوپو! میں اب جاؤں گا  کسی تکلف کی گنجائش بالکل نہیں ہے۔“ وہ اٹھتے ہوئے کہنے لگا۔

”ارے نہیں  میں تمہیں ابھی نہیں جانے دوں گی  کولڈ کافی منگواتی ہوں  وہ تمہیں پسند ہے ناں اور رات کو ڈنر یہیں کرنا  سب ہوں گے مزہ آئے گا۔

”ارے بیٹھ جاؤ ناں! بچی اتنے پیار سے کہہ رہی ہے۔“ اماں نے ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے قریب ہی بٹھا لیا تھا اور اسے پھر بیٹھنا ہی پڑا تھا۔ عامرہ مسکراتی ہوئی چلی گئی تھیں۔

”نامعلوم کیا بات ہے طغرل! جی بہت اداس اداس سا ہو گیا ہے۔ ایک عجیب سی بے چینی ہے  وہاں گھر میں تھی تو طبیعت میں بے کلی تھی یہاں آئی ہوں تو وہ بے چینی و بے کلی حد سے سوا ہو گئی ہے۔

”کیا مطلب دادو! شاید آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے  چلیں کسی بہترین ڈاکٹر سے چیک اپ کروا لیتے ہیں۔“ وہ بھی دیکھ رہا تھا دادی کسی اضطراب میں مبتلا ہیں۔

”ڈاکٹر کی ضرورت نہیں ہے مجھے  میرا دل عجیب وسوسے کا شکار ہو رہا ہے۔ ان دیکھے وہموں کا شکار ہو گئی ہوں  ہر گھڑی ہر لمحہ ایسا لگتا ہے جیسے کچھ ہونے والا ہے…“ اس نے چونک کر ان کے چہرے کی طرف دیکھا تھا اور ان کے چہرے کی رنگت کچھ متغیر بھی تھی  آنکھوں میں انجانے خوف کی پرچھائیاں سی تھیں۔
اس نے محبت سے ان کے ہاتھ تھام لئے اور کہا۔

”دادو! میں ہوں ناں! میرے ہوتے ہوئے آپ کو کسی سے بھی خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔“

”اللہ تمہیں سلامت رکھے میرے بچے! مگر نامعلوم کیا بات ہے  میں عائزہ کے چال چلن سے مطمئن نہیں ہوں۔“ ان کا اندیشہ اس کا دل دھڑکا گیا کہ وہ اتنی بے خبر نہیں تھیں جتنا ان کو سمجھا جا رہا تھا وہ ہونٹ بھینچ کر رہ گیا۔

”السلام علیکم نانی جان! السلام علیکم طغرل بھائی!“ تافیہ اور طیبہ بہت خوشی خوشی اندر داخل ہوئی تھیں اور ان کا موضوع بھی چینج ہو گیا تھا۔

###

وہ بے تابی سے اعوان کا انتظار کر رہی تھی۔ تین دن ہو گئے تھے اس کو اس کا انتظار کرتے ہوئے اور وہ جو بلاناغہ آتا تھا  ان تین دنوں سے نہیں آ رہا تھا اور اس کی انتظار کی شدت بڑھنے لگی تھی اور وہ گویا اس کا امتحان لے رہا تھا۔
آج اس کی دعائیں رنگ لے آئی تھیں اور وہ آ گیا تھا۔ رخ بے تابی سے اس کی طرف بڑھی تھی۔ اس نے مسکرا کر ڈور کھول دیا تھا اور اس کے بیٹھتے ہی کار ہواؤں کے دوش پر اڑنے لگی تھی۔

”کہاں چلے گئے تھے؟ معلوم بھی ہے یہ تین دن تین سال کے برابر گزرے ہیں مجھ پر اور تم بغیر اطلاع کے غائب ہو گئے تھے۔“ اس نے بیٹھتے ہی شکوہ کیا۔

”مائی ڈیئر! تین سال صرف… مجھ سے پوچھو جس کو یہ تین دن تین صدیوں کے برابر لگے ہیں۔
“ اعوان کے لہجے میں شکوہ نہیں بے قراری تھی۔

”کہاں چلے گئے تھے؟ کیا کام آ گیا تھا ایسا…؟“

”بزنس کے سلسلے میں جاپان جانا ہے۔ مجھے بس اس لئے ویزے کے سلسلے میں اسلام آباد چلا گیا تھا  تمہارا فون نمبر بھی نہیں ہے میرے پاس جو میں جانے سے پہلے تمہیں انفارم کر دیتا۔“

”سلو ڈرائیو کرو میرے پاس باہر جانے کا ٹائم نہیں ہے ہم ڈرائیونگ کے دوران ہی باتیں کریں گے  تم جاپان کب جا رہے ہو؟“ وہ سنجیدگی سے پوچھنے لگی۔

”پرسوں رات کی فلائٹ ہے میری  تم خاصی ڈسٹرب لگ رہی ہو کوئی پرابلم ہے کیا؟“ وہ اس کو دیکھتے ہوئے بولا۔

”ہاں! ڈیڈی منگنی کر رہے ہیں میری… کزن سے۔“ وہ بھرائی ہوائی آواز میں بولی۔

”وہاٹ! اور تم راضی ہو؟ تم نے ان کو بتایا نہیں کہ…“

”نہیں مانے وہ  میں نے بہت ٹرائی کی  وہ نہیں مانے۔“

”ڈونٹ وری! پلیز تم روؤ مت  میں ابھی تمہارے ساتھ چلتا ہوں  تم دیکھنا میں ان کو منا لوں گا  اتنے گٹس ہیں مجھ میں۔
“ وہ اس کے آنسو صاف کرتا اعتماد سے بولا۔

”نہیں اعوان! تم ڈیڈی کو نہیں جانتے وہ کبھی بھی نہیں مانیں گے  ان کو بیٹی سے بڑھ کر اپنے خاندان کی عزت عزیز ہے۔ وہ کہتے ہیں خاندان سے باہر شادی نہیں کریں گے۔“ گلوگیر لہجے میں کہہ رہی تھی۔

”تم ایک بار مجھے ان سے ملواؤ تو سہی  تم دیکھنا پھر…“

”مجھے معلوم ہے وہ نہیں مانیں گے بلکہ ان سے کوئی بعید نہیں وہ تمہیں نقصان پہنچانے کی کوشش بھی کریں۔
تم ان سے ملنے کا خیال چھوڑ دو پلیز… ہم ایسا کرتے ہیں کورٹ میرج کر لیتے ہیں۔ میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتی۔“ وہ چہرہ دونوں ہاتھوں سے ڈھانپ کر رونے لگی تھی۔ اعوان نے نسبتاً ایک سناٹے والی جگہ پر کار روک کر اس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر محبت سے کہا۔

”رخ! میں تم سے محبت کرتا ہوں اور تمہیں عزت و وقار کے ساتھ اپنانا چاہتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں ہم اپنی نئی زندگی کا آغاز اپنے بڑوں کی دعاؤں اور خوشیوں کے ساتھ کریں  بددعاؤں کے ساتھ نہیں۔“ وہ بڑی بردباری سے اسے سمجھا رہا تھا۔

   2
0 Comments